Sunday 7 April 2013

انتظار کا راستہ



کالے سمندروں کے سفر سے لوٹے ہوئے
وہ مجھے انتظار کی شکار گاہ کے قریب جاگتی ہوئی ملی
اس کی آنکھوں نے کہا
تم تو میرے بستر کی ہر شکن میں موجود تھے
اور میں ہر رات تمہارے کپڑوں میں بسے لمس سے ہم بستر ہوتی تھی
اب زندگی کتنے مختلف خانوں میں بٹ گئی ہے۔
سانپ کی کنچلی کی طرح ہم روز نئی زندگی بدلتے ہیں
کہ خود کو آئنیہ میں بھی نہیں پہچانتے
آراستگی سے اس زمانے میں
ہم نے خود کو جس روپ میں ڈھل لیا ہے
وہ گلدان میں سجے ہوئے
مصنوعی پھولوں کی طرح ہیں
جن پر سے گزرتے ہوئے موسموں کی ہوائیں
اپنا اثر کھودیتی ہیں
اور خزاوں میں بھی رنگوں سے آراستہ رہتے ہیں
ہم اپنے خواب توڑ دیتے ہیں
اور اپنی پیاس خالی کنوں سے بجھا نہیں سکتے
ہم جذبات کی دنیا سے بہت دور ہیں
خوشی و غم کے موسم ہمارے دل کے راستے سے نہیں گزرتے
حسب منشا، ہمارا لہجہ جذبات سے بھرپور ہوتا ہے
اور کبھی وقت ضرورت ہم غم کو خود پر طاری کرکے
ان جذبات کا اظہار کرتے ہیں ، جسکی پرچھائیں بھی ہم پر نہیں پڑی ہوتیں ہیں
آج گزرتا ہوا وقت ہمارا اپنا نہیں
زندگی جیسے ایک ڈور ہے جسے جیتنا ہے
چاہے منزل پر ہم تنہا ہی پہنچیں
اگر وقت ہمارے ہاتھوں سے چھن جائے تو؟
اس سوال پرہمارا دل ڈوب جاتا ہے
کیونکہ وقت کے اس پیرہین کے علاوہ ہمارے پاس کچھ اپنا نہیں
جو ہماری برہنگی کو ڈھانپ سکے
خواب ہماری نیند کے بند دروازوں پر سوکھ چکے ہیں
ہماری آنکھیں رات کے اندھرے میں تھک کر بند ہو جاتی ہیں
مگر انہیں نیند نہیں کہا جاتا
اور صبح ہم کسی طیور کی تلاوت پر نہیں اٹھتے ہیں
بلکہ الارم کی ایک گھناؤنی آواز ہمیں اپنی ٹھوکر سے اٹھاتی ہے
ہم چند لمحے اجنبی زندگی کا احساس کرتے ہیں
اور کسی کارخانے میں تیار شدہ سانسوں کا ماسک پہن کر
زندگی کی نئی صبح کا آغاز کرتے ہیں
ہوا میں بہتی تازگی ہمیں چھولے تو ہمیں چھنکیں شروع ہوجاتی ہیں
اس زندگی میں ہم اکیلے ہیں
رشتوں اور روشنیوں کے لمس سے محروم
اور نہیں جانتے کہ معطر خوشبوں سے بسے ہمارے جسموں کے اندر کئی تار ایسے بھی ہیں
جو دل سے جوڑے ہیں
اور انہیں کسی ایسی حرارت کی ضرورت ہے
جو موسموں کو ہم رکاب رکھتی ہو
جو خوا بوں کی دھلیز پر جاگتی انتظار کی آنکھ جیسی ہو
جو پاس آتے قدموں کی جھنکار سن سکتی ہو
جو موسموں کی کٹھیا میں رہتی ہو
اور محبت کے ایک لمحے کی متلاشی ہو
زندگی
ایک ایسی خوشی سےتعبیر کی جاسکتی ہے
جسکی ہر رات
دیکھا جانے والا خواب پورا ہو
مگر زندگی کا جو پیمانہ ہمارے ہاتھوں میں ہے
اگر ہم اسے چھلکنے سے بچانا چاھتے ہیں
تو ہم ہر گزرتے لمحے کو پیار کے حوالے سے امر بناتے چلیں
تاکہ
زندگی کے پیمانے میں
کوئی دکھ کی گھڑی نہ بچے
اپنے لہجوں کی تراش خراش سے
خودرو اگ جانے والے دکھوں کو
تناور درخت بنے سے پہلے
جڑؤں سمت اکھاڑ پھینکیں
اور رات کے خواب آلودہ ماحول میں ابھر نے والی سرگوشی بنا دیں
جسکے معنی صرف اور صرف
محبت ہی ہوتے ہیں



میں کیوں لکھتا ہوں
جب کبھی یہ سوال میں خود سے کرتا ہوں تو ایک مدافعتی سوچ وارد ہوتی ہے اور کئی دوسرے سوال سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔
تم سانس کیوں لیتے ہو؟
زندگی کی چہل پہل اور گہماگہمی تمہیں زندگی کے میلے میں کیوں گم کر دیتی ہے؟
دراصل میرے لئے لکھنا ، عین فطرت ہے ، جس طرح آنکھیں نظارہ کرتی ہیں، دل ڈھرکتا ہے اور تھکن نیند اوڑھتی ہے، میں بھی انہی فطری تقاضوں کی طرح ، اپنے خوابوں اور خیالوں کو لفظوں کے پرہن سے آراستہ کرتا ہوں۔
گزرے کئی سالوں کی اجلی روشنی کے پیچھے وہ ایک لمحہ ایسا بھی موجود ہے ، جب پہلی بار میں تخلیق کے کرب سے گزرا ۔۔ مجھ اعتراف ہے کہ وہ لمحہ محبت کا ایک نایا ب تحفہ تھا ، جب خواب، لمس اور نیند کی صورت گیت اور نظموں میں ڈھل رہے تھے۔
تخلیق کے اس لمحہ میں ایک درد آمیز لذت تھی۔
اور آج کئی سالوں کی مسافت کے بعد ، میں تخلیق کی کوکھ سے جنم لیتی شاعری کو اپنی ذات کا کل اظہار سمجھتا ہوں، یہ لفظ میرے کئی چہرے ہیں اور میرے وجود کی قامت کا ثبوت بھی،
عاجزی اور شکر گزاری جو خالص رب کائنات سے منسوب ہے ، اس نے میرے کمزور اور کمتر ہونے کو ایک قوی جذبہ میں ڈھال دیا ہے ، اور اپنے حضور میرے سجدے کا انموؒ ل کر دیا ہے۔
میں آج بھی بہت سی باتوں پر غور کرتا ہوں، شاعری کے برعکس نثر نگاری مجھے مرغوب کر تی ہے، یہی باعث ، میرے نثری نظموں کا ہے ، جو میرے لئے ایک تسکین آمیز رویہ ہے۔
لفظوں کی ترکیب اور استعاروں کی تشکیل ایک دو آتشہ نشہ کی صورت میرے رگ و پے میں اترتی ہے اور میں لفظوں کی ماہیت اور اشعارات کی طرف جست کرتا ہوں۔ لفظوں کی صورت گری کو کاغذ کے سیاہ پیرہن پر کاڑھتا ہوں۔ اجنبی صورتوں کو نئے نام دیتا ہوں اور ان سے دوستی استوار رکھتا ہوں، تخلیق ، زماں و مکاں سے ماورا ہوتی ہے، لفظ کبھی ہسنتی ، مسکراتی زندگی کا پیش نامہ ہوتے ہیں تو کبھی سیاہ خاموشی میں ڈھل جاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ زندگی کے تاریک گوشوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور ہمیشہ اجڑی ہوئی زمینوں ، جلے ہوئے درختوں، ٹوٹی پرواز سے گرتے پرندوں ، میلے میں کھوجانے والوں اور ملبے تلے دبے ہوئے خوابوں کا قصہ لکھا ہے۔
مجھے ہمیشہ یوں لگا ہے کہ میں بہت زخمی ہوں اور زندگی کے محاذ پر باطل قوتوں سے نبرد آزما ہوں، ظاہری شکت سے میرا بدن گھائل ہے، مگر نئی صبح کے نغموں سے میری نظمیں ہمیشہ جڑی رہیں اور میں سیاہ دیواروں میں نئی زندگی کا در وازہ کھولنے میں کامیاب رہا ہوں۔
تخلیق سے بھرپور یہ لفظ میرے لئے کسی اسم اعظم سے کم نہیں، میں ان لفظوں سے محبت کرتا ہوں اور ان سے وفا کی امید رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ دعاؤں سے قبولیت تک کے سفر میں یہی لفظ میری عبادت کا سہارا بنے ہوئے ہیں !