Sunday 7 April 2013


میں کیوں لکھتا ہوں
جب کبھی یہ سوال میں خود سے کرتا ہوں تو ایک مدافعتی سوچ وارد ہوتی ہے اور کئی دوسرے سوال سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔
تم سانس کیوں لیتے ہو؟
زندگی کی چہل پہل اور گہماگہمی تمہیں زندگی کے میلے میں کیوں گم کر دیتی ہے؟
دراصل میرے لئے لکھنا ، عین فطرت ہے ، جس طرح آنکھیں نظارہ کرتی ہیں، دل ڈھرکتا ہے اور تھکن نیند اوڑھتی ہے، میں بھی انہی فطری تقاضوں کی طرح ، اپنے خوابوں اور خیالوں کو لفظوں کے پرہن سے آراستہ کرتا ہوں۔
گزرے کئی سالوں کی اجلی روشنی کے پیچھے وہ ایک لمحہ ایسا بھی موجود ہے ، جب پہلی بار میں تخلیق کے کرب سے گزرا ۔۔ مجھ اعتراف ہے کہ وہ لمحہ محبت کا ایک نایا ب تحفہ تھا ، جب خواب، لمس اور نیند کی صورت گیت اور نظموں میں ڈھل رہے تھے۔
تخلیق کے اس لمحہ میں ایک درد آمیز لذت تھی۔
اور آج کئی سالوں کی مسافت کے بعد ، میں تخلیق کی کوکھ سے جنم لیتی شاعری کو اپنی ذات کا کل اظہار سمجھتا ہوں، یہ لفظ میرے کئی چہرے ہیں اور میرے وجود کی قامت کا ثبوت بھی،
عاجزی اور شکر گزاری جو خالص رب کائنات سے منسوب ہے ، اس نے میرے کمزور اور کمتر ہونے کو ایک قوی جذبہ میں ڈھال دیا ہے ، اور اپنے حضور میرے سجدے کا انموؒ ل کر دیا ہے۔
میں آج بھی بہت سی باتوں پر غور کرتا ہوں، شاعری کے برعکس نثر نگاری مجھے مرغوب کر تی ہے، یہی باعث ، میرے نثری نظموں کا ہے ، جو میرے لئے ایک تسکین آمیز رویہ ہے۔
لفظوں کی ترکیب اور استعاروں کی تشکیل ایک دو آتشہ نشہ کی صورت میرے رگ و پے میں اترتی ہے اور میں لفظوں کی ماہیت اور اشعارات کی طرف جست کرتا ہوں۔ لفظوں کی صورت گری کو کاغذ کے سیاہ پیرہن پر کاڑھتا ہوں۔ اجنبی صورتوں کو نئے نام دیتا ہوں اور ان سے دوستی استوار رکھتا ہوں، تخلیق ، زماں و مکاں سے ماورا ہوتی ہے، لفظ کبھی ہسنتی ، مسکراتی زندگی کا پیش نامہ ہوتے ہیں تو کبھی سیاہ خاموشی میں ڈھل جاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ زندگی کے تاریک گوشوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور ہمیشہ اجڑی ہوئی زمینوں ، جلے ہوئے درختوں، ٹوٹی پرواز سے گرتے پرندوں ، میلے میں کھوجانے والوں اور ملبے تلے دبے ہوئے خوابوں کا قصہ لکھا ہے۔
مجھے ہمیشہ یوں لگا ہے کہ میں بہت زخمی ہوں اور زندگی کے محاذ پر باطل قوتوں سے نبرد آزما ہوں، ظاہری شکت سے میرا بدن گھائل ہے، مگر نئی صبح کے نغموں سے میری نظمیں ہمیشہ جڑی رہیں اور میں سیاہ دیواروں میں نئی زندگی کا در وازہ کھولنے میں کامیاب رہا ہوں۔
تخلیق سے بھرپور یہ لفظ میرے لئے کسی اسم اعظم سے کم نہیں، میں ان لفظوں سے محبت کرتا ہوں اور ان سے وفا کی امید رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ دعاؤں سے قبولیت تک کے سفر میں یہی لفظ میری عبادت کا سہارا بنے ہوئے ہیں !


No comments:

Post a Comment